ایک تاریخی سال، ایک تاریخی حق نمائی

تاریخ میں ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔ اور جب بھی ایسی حق نمائی ہوتی ہے، بعض عظیم تبدیلیاں ضرور آتی ہیں۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ اس سال میں تین ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن سے جھوٹ کی سالہا سال کی کاوشوں پر پانی پھر گیا۔ پہلے تو وکی لیکس نے عرب دنیا اور دیگر علاقوں میں ان کے راہنماؤں کے بارے میں ایسی سچائی کو پیش کیا  کہ جس کا بہت لوگوں کو شک تو تھا مگر ان کے پاس ثبوت نہیں تھا۔ اس کے نتیجہ سے عرب دنیا پہلی سی نہیں رہی۔ پھر فلسطینی کاغذات کا انکشاف ہؤا جس سے اسرائیل کی بدنیتی عیاں ہوئی اور فلسطینی گروہوں میں باہمی صلح ہو گئی۔

وہ سال

اور اب پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال، ۱۹۷۴، میں ایک پارلیمانی کارروائی جس پر مہر لگی تھی، وہ منظر عام پر آ رہی ہے۔ اور لگتا ہے کہ پھر سالہا سال کا جھوٹ کھل کر سامنے آئے گا۔ اس سال لاہور میں اسلامی ممالک کے سربراہان کا دوسرا اجلاس ہؤا، جس میں شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا لوہا منوایا۔ اسی سال پاکستان میں ایک اقلیت ، قادیانی جماعت، نے اپنے پر لگنے والے ایک الزام – کہ ان کا شہر ربوہ در اصل ریاست کہ اندر ریاست ہے – کو سچ ثابت کر دکھایا۔ اور ایک ٹرین پر حملہ کر کے ملک کے سامنے ایک ایسا سوال کھڑا کر دیا کہ اس کا جواب دینا ضروری ہو گیا۔ مملکتِ خدادادِ پاکستان کا آئین ابھی نیا نیا تھا اور اس مسئلہ کا حل آئینی اور قانونی طریق سے پارلیمان میں نکالا گیا۔

اس مسئلہ کے تین رخ تھے۔ ایک تو آئینی تھا، یعنی کہ نئے آئین میں صدر اور وزیر اعظم کا مسلمان ہونا ضروری تھا، لھذٰ مذہب کی تعریف کی ضرورت بن گئی جیسا کہ سعودی عرب اور اسرائیل اور انگلستان کے قوانیں میں مذہبی تعین کے قوانین اور اصول بھی ہیں۔ سعودی عرب میں اس لیے کہ حرمین میں صرف مسلمان داخل ہو سکتا ہے، اسرائل میں اس لیے کے دنیا کا کوئی بھی یہودی فوراً اس کی شہریت کا حقدار ہو سکتا ہے، اور انگلستان کا اس لیے کہ اس کا فرمانروا انگریزی کلیسا کا بھی سربراہ ہوتا ہے، اور برطانوی تاج کیتھولک کے پاس نہیں ہو سکتا۔ دوسرے دو پہلو وہ تھے جن کا علامہ اقبال نے ۱۹۳۵ میں نشاندہی کی تھی مگر ان کو قانون میں زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا تھا۔ دوسرا یہ کہ بعض قادیانی افسر اپنے خلیفہ کے ایسے تابع ہوتے ہیں کہ وہ حکومت اور فوج کی اندرونی خبریں پہنچاتے ہیں اور اپنے خلیفہ سے اپنے پیشہ ورانہ کام کے بارے میں بھی مشورہ لیتے ہیں۔ اس کی بنیاد سر ظفراللہ خان صاحب نے پاکستان بننے سے پہلے ڈالی اور بڑے فخریہ انداز سے اپنی سوانح عمری میں اس کا ذکر کیا۔ اور تیسرا یہ کہ اپنی ہیئت سے ہی قادیانی، مگر لاہوری نہیں، اسلام سے ایک متوازیت کے خواہاں ہیں اور اس کی بنیاد ان کے سربراہ مرزا محمود نے ڈالی اور اس کی بو علامہ اقبال کو کشمیر کمیٹی میں ۱۹۳۲ یا ۱۹۳۳ میں ہی آ گئی تھی۔

یہ تینوں مسائل ایسے نہیں تھے کہ نا قابلِ حل ہوتے ، مگر قادیانی سربراہوں کی عقل سے فراست نے ایسا فرار اختیار کیا اور دکانداری کی کامیابی ان کے حواس پر چھائی رہی کہ بجائے اس کے کہ وہ ان مسائل کا حل کرتے، وہ ان کو پہچان بھی نہ سکے۔

میں نے ۲۰۰۳ میں لکھا تھا کہ جماعتِ احمدیہ کے سامنے دو راستے ہیں: اسلام سے موافقت کا یا مزید دوری اور میری رائے تھی کہ اپنے ماضی کا سامنا کیے بغیر موافقت کا کوئی راستہ نہیں۔ افسوس سے یہی بات درست نکلی اور بجائے اپنی تاریخ سے نبرد آزما ہونے کے وہ ایسے راستہ پر چل نکلے ہیں جس میں وہ اپنے ماضی کا انکار کرتے ہوئے ابن الوقتی کی اعلیٰ مثال قائم کر رہے ہیں۔

قادیانی جماعت کا ردّ عمل

جب میں ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو قادیانی اور لاہوری جماعت احمدیہ، دونوں کی تاریخ کے دو ادوار دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹۷۴ سے پہلے کا دور اور ۱۹۷۴ کے بعد کا دور۔ کسی کو امید نہ تھی کہ ایک سیکولر آدمی، یعنی کہ بھٹو صاحب کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب، قانون کا ایک ایسا باب کھولیں گے کہ اس پیچیدہ اور جذباتی اور مذہبی مسئلہ کو ایسا حل کریں گے کہ ایک قادیانی سینیٹر بھی ترمیم پر دستخط کر دے گا۔ اور ایسا ہی ہؤا اور جب ترمیم صوبائی اسمبلیوں میں گئی تو کسی قادیانی ممبر یا قادیانی نواز نے بھی آواز نہیں اٹھائی۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ حق کی علمی فتح بہت ہی خوفناک تھی۔

یہ ایک قانونی فیصلہ تھا اور قادیانی جماعت کو وہ تمام حقوق حاصل تھے جو پاکستان میں مسیحی، اسماعیلی یا ہندو اقلیتوں کو حاصل ہوتے ہیں، مگر قادیانی سربراہ نے اس کو فتویٰ کفر بنا کر پیش کیا۔  جھوٹ پر ازل سے قدرت نے یہ لعنت ڈالی ہوئی ہے کہ وہ سچائی کا پیچھا نہیں کرتا بلکہ سچائی اور شفافی اور حق سے لڑتے لڑتے دور سے دور ہو تا جاتا ہے حتیٰ کے کٹ کے کالعدم ہو جاتا ہے۔اگر قادیانی جماعت واقعی پارلیمانی کارروائی پر غور کرتی اور عالمِ اسلام سے اپنا تعلق مرمت کرنے اور بالاخیراس کو واپس کرانے کی کوشش کرتی تو آج میں بیٹھا یہ سطور نہ لکھ رہا ہوتا۔ اگر وہ اس کو غلطی سمجھتے تو غلطی کا تدارک کا ذریعہ ڈھونڈتے اور اس قانون کے تدارک کے لیے قانون پر کام کرتے۔

اس کے برعکس انہوں نے بھٹو صاحب پر کیچڑ اچھالا، اور حالانکہ اسی سال سب سے محبت ، نفرت کسی سے نہیںکا نعرہ ان کے سربراہ نے بلند کیا تھا۔ بھٹو صاحب اور پاکستان سے ایسی نفرت اپنے پیروکاروں کے دل میں ڈالی کہ ابھی بھی حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ایسے بھی پاکستانی ہو سکتے ہیں جو اتنے دردِ دل سے اس ملک کی تباہی کی دعا کرتے ہیں تا کہ اس ملک کو اِس جرم کی سزا ملے۔ یوں تو کہتے ہیں کہ ہم دعا ہی کرتے ہیں مگر دنیا کہ ہر ملک، اور ہر حکومت کے سامنے پاکستان کو بدنام کرتے ہیں۔  اپنے نبی کے الہام میں کتّے کے لفظ کو بھٹو صاحب پر چسپاں کرتے ہوئے ان کی موت پر خوشی منائی، اور حیرت یہ کہ بھٹو کی موت کے ذمہ دار ضیاءالحق کی موت پر بھی مٹھائی بانٹی۔ ایسی نفرت اور کم عقلی کی داستان ہے کہ پھر کسی وقت ذکر ہو گا۔

اور اس سب نفرت کی بنیاد اس دستاویز کو بناتے ہیں جس کی اب نقاب کشائی ہونے والی ہے، اور بقول قادیانی سربراہ کے، یہ وہ دستاویز ہے جو آدھے پاکستان کو قادیانی کر دے گی۔حالانکہ جو لوگ وہاں موجود تھے ان میں سے تو کوئی بھی قادیانی نہ ہوا۔  بلکہ پارلیمانی کارروائی کا بہت سا حصہ نوٹس کے ذریعہ سے اور جنوبی افریقہ میں ایک مقدمہ کے سلسلہ میں ظاہر ہو گیا،  اور وہ شائع بھی ہو چکا ہے۔ قادیانی علماء بھی وہاں موجود تھے اور انہوں نے بہت سارے نوٹس بھی لیے تھے  مگر انہوں نے، وہ کہان کئے؟

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قادیانی یہی کہتے رہے کہ اس کارروائی کو اس لیے چھپایا گیا ہے کہ قادیانیت کی سچائی ظاہر نہ ہو، اور پاکستانی حکومت اس بات پر ہنس کر رہ جاتی تھی۔ اب شائع کرتے ہوئے بھی پاکستانی حکومت ہنس رہی ہو گی، کہ اب جھوٹ کونسا پینترا بدلے گا؟